اللہ سے گلہ

A young boy thinking while sitting in a garden, Gemini Generated Image.

اپنی تکلیف سے بڑھی تکلیف اپنے کسی پیارے کو تکلیف میں دیکھنا اور اس سے بڑھ کر تکلیف یہ ہے کہ دیکھ کر چاہتے ہوئے بھی اس کے لیے کچھ نہ کرسکنا۔ یہ بے بسی بڑی تکلیف دہ ہوتی۔ میرے دوست کے ہاں سالوں بعد بیٹی پیدا ہوئی ، ابھی خوشی نہ تھمی تھی کہ وہ بلڈ کینسر کا شکار ہوگئی ۔ اڑتے اڑتے بات مجھ تک پہنچی تو میرے ذہن میں کینسر سے متعلق یہ رائے تھی کہ اگر یہ کم عمر بچوں میں ہو تو اس کے ٹھیک ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہوتے۔ اسی خیال کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے اسے مشورہ دیا کہ بچی ابھی چھوٹی ہے امید ہے انشاللہ ٹھیک ہوجاۓ گی۔ اس کو سرکاری ہسپتال نہ لے کر جانا۔ اس نے میرے سے ذکر کرنے سے پہلے ایک انکالوجسٹ سے مشورہ کرلیا تھا اور انہوں نے جو انجیکشن یا کیمو تھراپی تجویز کی اس کی قیمت قریب ایک لاکھ ستر ہزار تھی ۔

وہ بیچارہ محنت مزدوری والا بندہ تو یہ ناممکن سی بات تھی ۔ خیر میں نے کراچی اپنے ایک دوست جو کہ ایک میڈیسن کمپنی میں اچھے عہدے پر ہے اس سے بات کی تو اس نے کہا کہ یہ انجیکشن رجسٹر نہیں ہے سمگل ہوکر آتا ہے اور یہ اسی ہزار کے قریب مل جائے گا۔ کینسر کی دوا زیادہ تر ترکی ، ایران ، انڈیا اور افغانستان سے سمگل ہوتی ہے اس پر پھر کبھی ںات کریں گے ۔ خیر کراچی کے دوست جو کہ ہندو مذہب سے تعلق رکھتا ہے اس نے کہا کہ میرا آپ کو مشورہ ہے کہ ایک مرتبہ شوکت خانم ہسپتال لے جائیں ۔ میں پہلے شوکت خانم ہسپتال جا چکا تھا اور مجھے اس بات کی امید پیدا ہوگئی تھی کہ بچی کی عمر کم ہے تو اس کو وہ لے لیں گے ۔ شوکت خانم ہسپتال کی خاص بات یہ ہے کہ یہ ٹیسٹ رپورٹس اپنے ہسپتال سے دوبارہ کرواتے ہیں اور بچی کا بون میرو پہلے چغتائی لیب سے ہوچکا تھا ۔ خیر ایک ڈاکٹر ضیاء بلوچ صاحب شوکت خانم ہسپتال میں میرے واقف تھے تو ان سے بات کرنے پر معلوم ہوا کہ ہمیں وہاں لے جانے میں دیر نہیں کرنی چاہیے ۔

میں نے ضیا بلوچ صاحب کا نمبر اپنے دوست کو دے کر وہاں جانے کا مشورہ دیا اور وہ کوئ تین چار دن بعد بچی کو لے کر وہاں چلا گیا ۔ اس کی دکان پر میں کچھ دن بعد گیا تو معلوم ہوا کہ وہ تو یہاں نہیں ہے ۔ بچی کو داخل کر لیا گیا ہے ۔ مجھے بے حد خوشی ہوئی کہ چلو میرا دوست جس کے پاس صرف ایک ہی دو ڈھائی مرلے کا پلاٹ تھا وہ بچ گیا کیونکہ وہ بچی کے لیے اسے بیچنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ اس سے رابطہ ہوا تو معلوم ہوا کہ شوکت خانم ہسپتال والوں نے بچی کو داخل کرنے سے اس لیے انکار کر دیا کہ اس کی عمر کم ہے ۔ داخل ہونے کے لیے کم از کم چار سال عمر ضروری ہے ۔انہوں نے بچی کو چلڈرن ہسپتال لاہور منتقل کیا اور وہاں بچی کو کیمو کی ایک ڈوز بھی لگ گئی جو کہ اپنے خرچے پر میرے دوست نے لگوائی ۔ دوست کے مطابق گڑیا اب ٹھیک تھی ۔

صبح ایک دن اٹھا تو اعلان ہوا کہ فلاں کی بیٹی فلاں کی بھتیجی انتقال کرگئ۔ دوست سے ملاقات ہوئی تو اس نے بتایا کہ اللہ نے اسے ںیٹا دیا ہے اور بیٹی بہت بہتر جگہ جاچکی۔ میں جنازے پر نہیں جاسکا تو یہ سب مجھے اس نے بعد میں بتایا ۔ میرے اندر ایک خیال پیدا ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے بہتر کیا، اس بیچاری کی زندگی ویسے ہی مشکل تھی اور ایک غریب کے گھر پیدا ہونے کے بعد اس کی جمع پونجی بھی اس کی لا علاج بیماری پر لگ جانی تھی۔ اس خیال کے ساتھ ایک سوال یہ تھا کہ اتنی تکلیف اللہ تعالیٰ نے پھول جیسی بچی کو کیوں دی۔ آپ ایک انجیکشن کی تکلیف برداشت نہیں کر سکتے تو وہ پھول جیسی بچی نے کیسے بون میرو کا سیمپل دیا ہوگا۔ یہ سوال مجھے بے حد پریشان کرتا تھا ۔
میری بڑی خالہ کے دو بیٹے معذور پیدا ہوئے ۔ ایک شروع سے معذور تھا اور دوسرا چلتا پھرتا چارپائی پر بیٹھ گیا ۔ دوسرے بھائی اٹھا کر واش روم لے جاتے ۔ آج سے قریب پندرہ سال پہلے ان میں سے ایک کا اچانک سانس رکا اور وہ ہسپتال جاتے ہوئے انتقال کرگیا۔ دوسرا بیٹا جو چلتا پھرتا چارپائی پر بیٹھ گیا ، موسمی کھانسی کا شکار ہوا اور بات آکسیجن سیلنڈر تک پہنچی ۔ دو ماہ وہ بیچارہ معذور جو اپنا ہاتھ نہیں ہلا سکتا، ٹانگوں کو سیدھا نہیں کرسکتا ، دو ماہ وہ وینٹیلیٹر پر رہا۔ اس کے پھیپھڑے کسی ہڈی کے نیچے آگئے اور ڈاکٹرز نے اس کے معصوم جسم پر جتنی جگہ سوراخ ہوسکتا تھا کیا، کبھی کسی جگہ نالی لگائی کبھی کسی جگہ ۔ پسلیوں کے پاس سوراخ ہوتا میری آنکھوں نے دیکھا اور کانوں نے اس کی چیخ وپکار سنی۔ انہی آنکھوں نے اس کی آنکھوں سے تکلیف اور بے بسی کے عالم میں بہتے خاموش آنسو دیکھے۔ بھائی اس کا چھٹی لے کر دبئی سے پاکستان آیا۔

بہت سے لوگ اس کی خبر کو آۓ۔ ہم سب بھائی ہی ہسپتال باری باری رکے لیکن جو قربانی اس کے بڑے بھائی نے دی وہ کوئی نہ دے سکا۔ وہ اس کے ساتھ دو مہینے مسلسل جاگتا رہا، بینچوں پر سوتا رہا ایک گھنٹے کے لیے بھی گھر نہیں آیا۔ اس کو عام حالات میں بھی وہی نہلاتا ناشتہ کرواتا تھا، ایسی محبت کی مثالیں کم ہی ملتی۔ اس کی بیمار پرسی کے لیے بہت سے لوگ آئے ، ان آنے والوں میں سے ایک ان کے گاؤں کے امام مسجد بھی تھے ۔ ہر بندہ اپنے لحاظ سے بیماری کو بیان کرتا تھا کوئ کہتا تھا اسے فلاں جگہ دکھاؤ کوئی ہم جیسے پڑھے لکھے جاہل اس کو انگریزی انداز سے بیان کرتے تھے ، مگر میں جتنی دیر اس کو ہسپتال دیکھتا رہا میرے ذہن میں یہ ہی سوال تھا کہ یہ بیچارہ پندرہ سال کا لڑکا اوپر سے معذور اس نے کیا ہی گناہ کیا ہوگا کہ اس کو اتنی تکلیف سے گزرنا پڑا۔ یہ سوال اس کی تکلیف دیکھ کر سوال کم اور شاید اللہ سے گلہ زیادہ لگنے لگا تھا کہ اس بیچارے کا کیا قصور ۔ امام مسجد آئے وہ بہت کم بولتے ہیں ۔ اسے دیکھ کر کہنے لگے اس بیچارے نے کچھ نہیں کیا، سزا تو اوپر والوں کو ہے ۔ بس انکا یہ کہنا تھا کہ مجھے بات سمجھ آگئی ۔

دوسری کہانیوں کے لیے یہاں “اردو کہانیاں” پر کلک کریں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *