میں ایک اندھیری رات کا مسافر ،جو اگر دن کو سفر کرے تو چہرے کی اصلیت سامنے آجائے ۔اس اندھیری رات میں ایک امید ہے کہ کوئی میرے کردار پر، میرے چہرے پر انگلی نہیں اٹھائے گا ۔لیکن اس اندھیری رات میں اس چمکتے چاند اور ستاروں کا کیا جو سورج کے ڈھلتے ہی ،اپنی چمک سے آسمان کو روشن کردیتے ہیں ۔اس ستاروں اور چاند سے میں بچ کر چلنے کی کوشش کرتا ہوں ،لیکن آخرکار یہ چمک اس گھپ اندھیرے میں بھی میرے چہرے کے داغ کو ایک چوٹ ضرور دیتی ہے اور وہ چوٹ بھاگ کر دل کو پیغام دیتی ہے کہ جب تمہارے اندر کا اندھیر نگر رات کے اندھیرے میں بھی نہیں چپ سکتا، تو اس اندھیر نگر کو روشن کرلو، لوگوں کے بارے اندازے مت لگاؤ ، کون کتنا اچھا ہے اور کون کتنا برا یہ تو رات کے گھپ اندھیرے میں بھی نہیں چھپ سکتا اور تم دن کو منہ چھپاتے پھرتے ہو؟ رات کے سفر سے کبھی کچھ سیکھو تو صبح اٹھ کر اس سفر کو اس سراۓ سے نکل کر جاری رکھنا ، کیونکہ یہ سراۓ کی حد ہوتی ، آخری سراۓ سے نکل کر کدھر جاو گے ۔
سمندر کی ریت اڑٹی اڑتی جب تمہاری آنکھوں کو سرخ کردے گی، تب نہ تمہارے کوئی آنسو پہچانے گا اور نہ کوئی تمہاری آنکھوں میں جمی گرد صاف کرے گا۔ اس لیے اندھیری رات کے مسافر ، سفر تو کر مگر آخری سراۓ سے پہلے کسی سراۓ کی بنیاد تو رکھ ڈال، کل کو کوئی تیری طرح کا بھولا بھٹکا اندھیری رات میں داغ چھپاتے آئے تو اسے کم از کم سراۓ تو نصیب ہو ، باقی تیری مرضی۔ تو کسی کے لیے سراۓ بنا یا نا بنا لیکن تجھے بنانے والے نے تیری سراۓ ضرور بنائی ہوگی،اس سراۓ وہ پوچھے گا کہ اے اندھیری رات کے مسافر کسی اپنے جیسے کے لیے سراۓ بنائی کہ اس کے داغ سب کے سامنے عیاں کرتا رہا۔