کم عمری میں انسان بہت سی غلطیاں کرتا ہے ۔ ہم تب چھٹی کلاس میں پڑھتے تھے ۔ ٹیچر کلاس میں موجود نہیں تھی تو ہم نے اپنی موجودگی کا احساس دلانا ضروری سمجھا۔ ٹھیک ٹھاک شور کیا۔ چھٹی کلاس کا بچہ کیا کرسکتا ہے یہی کہ اپنے ہم جماعت کو دھکا دے دیا ۔ آوازیں دے لی۔ کلاس میں کرکٹ شروع کردی۔ ہم سب اسی شور وغل میں مصروف تھے ہمارا ایک دوست تھا وہ پینٹ بہت نیچے باندھا کرتا تھا۔ تو مذاق میں دوسرے دوست نے اس کی پینٹ اتاردی۔ پہلی ہی اتری ہوئی تھی بس اس نے تو الزام ہی سر لیا۔ خیر ہم لوگوں نے اس وقت جب ہماری عمریں یہی بارہ تیرہ برس تھیں ۔ خوب انجوائے کیا۔ جس کی اتاری پینٹ وہ بھی ہستا رہا، جس نے اتاری وہ بھی اور ہم بھی ہستے ہی رہے ۔
ہماری موجودگی کا احساس سٹاف روم میں بیٹھی اسٹیبلشمنٹ کو تو نہیں ہو سکا مگر اسمبلی گراؤنڈ سے گزرتے ہوئے پی ٹی انسٹرکٹر سر الیاس کو ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ انہیں سلامت رکھے جہاں بھی وہ ہیں (آمین)
وہ آۓ تو کافی ناراض ہوئے ، ہم سمجھے کہ ہر ٹیچر ہی بچوں کے شور سے ناراض ہوتا ہے اس میں کونسا کوئی نئی بات ۔ ہم ڈھیٹ ہوکر سب سنتے رہے اندر سے ہس رہے تھے ۔ سر کو یہ معیوب حرکت کا بھی پتا چل چکا تھا کہا کچھ نہیں مگر جاتے ہوئے جس نے یہ حرکت کی تھی اسے مخاطب کرتے ہوئے کہنے لگے کہ انسان کے پاس آخری چیز اس کی عزت ہوتی ہے، کوشش کرنا کہ وہ کسی سے نہ چھیننا ۔
یہ سن کر اس وقت تو ہم ہس پڑے کہ لے اس (یعنی ہمارے دوست کی) اس کی کیا عزت ۔ اس کو گھر کھانا نہیں دیتے وغیرہ وغیرہ جیسی ٹھنڈی جکتے مار کر دن گزرتے گئے اور بات پرانی ہوتی گئی ۔ ویسے تو میرا حافظہ اتنا مضبوط نہیں کہ یاد رہ جائے لیکن سر کی یہ بات کہ کوشش کرنا عزت نہ چھیننا کسی سے ، کسی جگہ اٹک گئی اور میں عمل کا دعویٰ تو نہیں کرتا لیکن کبھی بھول نہیں پایا۔
سال گزرتے گئے اور ایک جگہ شیکسپیئر کا ایک پلے اوتھیلوکو پڑھتے ہوئے ایک لائن گزری کہ
Who steals my purse steals trash; ’tis something, nothing;
‘Twas mine, ’tis his, and has been slave to thousands;
But he that filches from me my good name
Robs me of that which not enriches him,
And makes me poor indeed”
اب اس کا سادہ سا ترجمہ یہ ہے کہ اگر کوئی میری نیک نامی کو نقصان پہنچاۓ تو یہ مجھے غریب کردے گا نسبتاً اس مالی نقصان کے جو کہ آنی جانی چیز ۔
میں نے یہ پڑھا تو بہت متاثر ہوا۔ ہمارے ایک انگلش کے پروفیسر تھے پنجاب کالج شیخوپورہ میں سر عاطف۔ اللہ تعالیٰ انہیں سلامت رکھے جہاں بھی وہ ہیں آمین ۔ انہوں نے ایک دن یہی لائن پڑھی اور کہنے لگے کہ یہ شیکسپیئر نے چوری کی ہے یہ دراصل حضرت علی رضہ اللہ تعالیٰ عنہ کا قول مبارک ہے جس کا مفہوم ہے کہ
دولت کا چھن جانا کچھ بھی نہیں بلکہ عزت کا چھن جانا سب کچھ ہے ۔
عاطف صاحب سمجھانا چاہ رہے تھے کہ انگریزوں نے لٹریچر ہمارا چرایا ہم اس کی حفاظت نہ کرسکے ۔ خیر یہ ایک اور موضوع ہے اس پر پھر کبھی سہی ۔
تو میں یہ بات سن کر سوچ میں پڑ گیا کہ کیا عزت ایسی چیز ہے کہ اس کی چوٹ سب سے گہری چوٹ ہوتی۔ میں نے بہت سے واقعات دیکھے اور محسوس کیا کہ واقعی عزت بہت قیمتی چیز۔ بلکہ کہیں نہ کہیں ہمارے جیسے انسانوں کی کمزوری بھی۔
بات سیاسی نہیں کرنا چاہتا لیکن آپ دیکھیں کہ کیسے ہماری ماؤں بہنوں کی عزتیں اچھالی جارہی۔ سیاسی مخالفین کو پکڑتے ہیں تو ان کی رائے تبدیل کروانے کے لیے تشدد کرتے، کچھ برداشت نہیں کرسکتے تو موقف بدل لیتے، کچھ برداشت کرلیتے ۔ ان کا موقف بدلنے کے لیے مزید سختیوں میں سے آسان طریقہ یہی سمجھا جاتا کہ اس کی ماں ، بہن یا بیٹی کو اٹھا لو۔ ان کی نازیبا وڈیوز بنا لو۔
اسے دکھاو اس کی ماں بہن اور بیٹی کی نازیبا وڈیوز ۔ اب ایک عزت دار آدمی تو دور کی بات عام لفنگا بھی ہو تو وہ کم از کم اپنی ماں بہن بیٹی کا لحاظ تو کرتا تو آپ جب اسے اس کی ہی ماں بہن اور بیٹی کی ویڈیو دکھاتے تو وہ غریب تو تب ہی ہوجاتا اسے ڈیفالٹ کرنے کے لیے ایسی وڈیوز کو پبلک کرنے کی دھمکیاں دی جاتی۔ تو یہ نہیں کہ یہ ایک مخصوص جماعت سے ہو رہا تو غلط ہے کسی کے ساتھ بھی ہو تو غلط ہے ۔ہمارا معاشرہ ذاتی انا کی تسکین کے لیے اس قدر گر چکا ہے کہ انہیں کسی چیز کی شرم ہی محسوس نہیں ہوتی ۔ یہ کسی بھی معاشرے کا سوشل فیبرک تباہ ہونے کا سب سے نچلا درجہ ہے ۔
آج اپنے جیسے ہزاروں افراد کو چپ بیٹھا دیکھ کر سکول کا منظر یاد آتا ہے کہ جس نے پینٹ اتاری اور جس کے ساتھ یہ حرکت ہوئی تھی، اس بات کا دکھ یا افسوس انہیں بعد میں ہوا ہوگا لیکن میں تب بھی انجوائے کرنے والوں میں سے تھا اور آج بھی تماشائیوں میں سے ہوں ۔ میں نے تو اتنی بھی شرم نہیں کی کہ لکھتے ہوئے سکول کے واقعے کو زرا محتاط انداز میں بیان کردیتا۔ وجہ یہی ہے کہ نہ تب معاملہ میری عزت کا تھا نہ آج ہے۔
آج یہ سب میری ماں بہن کے ساتھ ہوتا تو میں چیختا لیکن میں خاموش اسی وجہ سے ہوں کہ ابھی ان جانوروں کا ہاتھ میرے گھر کی عزت پر نہیں آیا ۔ میرا ان سب میں قصور کوئی نہیں لیکن میں تماشائیوں میں سے ہوں یہ مجھے قبول کرنا ہوگا۔وہ ایک جرمن رائٹر جو کہ نازی پارٹی کا بہت قدردان تھا، اس نے لکھا کہ
سب سے پہلے وہ کیمونسٹ پارٹی کے لوگوں کو اٹھانے آۓ اور میں خاموش رہا کیونکہ میں کیمونسٹ پارٹی میں نہیں تھا۔ اس کے بعد وہ سوشلسٹ کو اٹھانے آۓ میں پھر نہیں بولا کیوں کہ میرا تعلق سوشلسٹ سے نہیں تھا۔ پھر ہٹلر کی فوج ٹریڈ یونین کے ممبران کو اٹھانے کے لیے پہنچی، میں پھر نہیں بولا کیوں کہ میں ان میں سے نہیں تھا۔ پھر وہ یہودیوں کو اٹھانے کے لیے آۓ اور میں چپ رہا کیونکہ میں یہودی نہیں تھا ۔ سب سے آخر پر وہ مجھے اٹھانے آۓ اور اس وقت کوئی باقی بچا ہی نہیں تھا کہ کوئی میرے لیے آواز اٹھاتا۔
تو ہم سب کو روٹی کپڑے اور مکان کے گول چکر سے باہر نکلنا ہے نہ کہ ملک سے ۔ یہ اشرافیہ کا طریقہ واردات رہا ہے کہ وہ ہم جیسے مڈل کلاس ذہنوں کو روٹی کپڑے میں الجھا کر ہماری سوچ کو اس طرف آنے ہی نہیں دیتے کہ ہم ان کے خلاف بول سکیں۔ خیر رات کافی ہوچکی ہے آپ میں سے بہت سے لوگوں نے دفتر بھی جانا ہوگا کوئی میرے جیسا لفنگا پاسپورٹ آفس کے چکر بھی لگائے گا کہ پاکستان سے زندہ بھاگ جاؤں، لیکن اگر کچھ نہیں ہوگا تو ظلم کے خلاف نعرہ بلند نہیں ہوگا کیونکہ ترقی یافتہ ذہنوں کے مالک ہیں محنت مشقت زرا کم ہی کرتے ہیں ۔
دوسری کہانیوں کے لیے یہاں “اردو کہانیاں” پر کلک کریں۔