مشہور شخصیات کو ہم یا تو ٹی وی کی سکرین پر دیکھتے ہیں یا اشتہارات میں ۔ پاکستان میں بہت سے لوگ حاکم رہے، بہت سو کو یہ ناز تھا کہ پاکستان ہمارے کاندھوں پر کھڑا ہے۔مجھے ان شخصیات سے ملنے کا کبھی شوق نہیں ہوا نہ ہی میرا ایسا مزاج ہے کہ میں عہدوں کی بنیاد پر لوگوں کو اہمیت دوں۔ شروع سے میری ذہن سازی ایسی ہوئی ہے کہ میں پروٹوکول یا سٹیٹس کو کے خلاف ہوں۔ ایکٹر آیا یونیورسٹی ساری عوام تصویریں ، وزیراعظم کے ساتھ سیلفیاں یہ وہ۔ یہ سب بلکہ فضول کام ہر جگہ نظر آتے ہیں جہاں آپ کسی پبلک فیگر کو دیکھتے ہیں ۔ ہمارے ایم این اے اور ایم پی اے صرف الیکشن کے دنوں میں آپ کو نظر آتے ہیں۔ باقی سارا سال یہ ہمارے مسائل کی نمائندگی کرتے ہیں اور اسلام آباد سے واپسی کا چکر لگانے کی فرصت نہیں ملتی ۔ میں نے اپنی آنکھوں سے صرف عمران خان کو دیکھا تھا آج سے قریب بارہ یا تیرہ سال پہلے ۔ تب وہ انفرادی طور پر دوسرے سیاست دانوں سے مختلف سوچ کے حامل تو ضرور تھے، مگر ابھی ، عوام میں مقبول نہیں تھے۔ میں بچہ تھا، مجھے بس کرکٹر عمران احمد خان کا ہی پتا تھا۔
خیر میں اس وقت بچہ تھا اور بچے زیادہ تجسس کا شکار ہوتے۔ مطلب آپ ان کو گاڑی دیں تو وہ اس کھلونے سے اتنا کھیلنے میں دلچسپی نہیں رکھتے جتنا اسے توڑ کر اندر دیکھنے میں وہ انٹرسٹد ہوتے ۔یہ تو آپ اپنے گھر بچوں میں چیز دیکھ سکتے ہیں ۔ خیر میں بچہ تھا لیکن پھر بھی مجھے کوئی ایسی چیز محسوس نہیں ہوئی کہ میں چھلانگ لگاؤں یا اونچی بولوں وہ دیکھو عمران خان ، تب تصویریں بنانے کا تو اتنا رواج نہیں تھا ۔ فیصل آباد کی ایک کالونی میں اشتہار لگا تھا کہ ہم برساتی نالے اور کارپٹ روڈ بنانے پر رانا ثنا اللہ کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور میں اسی روڈ سے اپنے کپڑے گٹر کے گندے پانی سے بچاتا ہوا گزر رہا تھا۔ بارہ نومبر کو میرا گزر پھر اسی راستے سے ہوا۔ تو ایک دم سات سے آٹھ گاڑیاں اپنے قریب سے گزرتی دیکھی۔ سچ پوچھیں تو وہ روڈ ان گاڑیوں کے شایانِ شان نہیں تھا ۔ حیرت ہوئی کہ یہ ڈالے اور بڑی گاڑیاں یہاں کس لیے ۔ پتہ چلا کہ جی رانا صاحب اس بار اس حلقے سے الیکشن نہیں لڑیں گے اور ان کی جگہ ان کا داماد لڑے گا۔ جس کا نام شہریار ہے۔ ہلکا پھلکا سا جوان سب سے آگے والی گاڑی سے نکلا اور بتایا گیا کہ وہ رانا صاحب کےکا داماد ہے۔
مجھے یہ لوگ خاص پسند نہیں تو مجھے ان میں دلچسپی بھی کوئی نہیں ۔ لیکن آج میں رک گیا کیونکہ وہ جس گھر آیا تھا میں ان کو بھی جانتا تھا اور جو ساتھ تھے وہ ایک بڑے نفیس انسان ہیں اور ایک سکول چلاتے اور میری ان ساتھ اچھی خاصی سٹنگ ہوتی اکثر تو ان کا اور میرا موقف بچوں کی تعلیم کو لے کر کافی ملتا جلتا۔ ان کی عمرقریب پینتالیس سال ہوگی ۔ انہوں نے فزکس کی کسی ڈومین میں کوئی ماسٹر وغیرہ کیا ہوا تو وہ مجھے اکثر یاد کرتے ہیں اور پیغام بھی پہنچاتے کہ اسے بھیجیں ۔ بڑے بھائی ان کے وکیل ہیں اور باقی عوام کو ملک سے فرار کرواتے یعنی یہ ویزے وغیرہ کا کوئی کاروبار ہے۔ بدقسمتی سے ان کے سیاسی نظریات کافی مختلف ہیں میرے سے مگر اس کا ہماری جو شناسائی ہے اس پر کوئی فرق نہیں پڑا۔
ایک آدھ مرتبہ مجھے ایسے لگا کہ شاید یہ چاہتے کہ میں نون لیگ کے یوتھ ونگ میں شامل ہوجاوں کیونکہ وہ یوتھ ونگ کے صدر ہیں، پر میرا جواب ہمیشہ کی طرح یہی ہوتا کہ سر جی دال نہیں گلنی تسی مرغی پکالو۔ خیر وہ بھی رانا صاحب کے داماد کے بائیں جانب تھے۔ میں رک گیا تو وہی جو یہ فضولیات ہوتی گاڑڈز روڈ بلاک اور یہ وہ۔ میں کھڑا ہوگیا تو میں نے باقی ساری گاڑیوں سے اترتے لوگ دیکھے ٹھیک روب والے اور اس جوان لڑکے سے یعنی رانا صاحب کے داماد سے تو کافی بڑے تھے، مگر میں نے آج دیکھا کہ یہ خوشامد بڑی بری چیز ، یہ بندے کو ٹکے کا نہیں چھوڑتی۔ سب وہ ایسے کھڑے ہیں جیسے یہ کوئی اور ہی مخلوق ہو۔ یعنی عجیب نظریں جھکی ہوئی سب کی۔ اس کے بعد جو سب سے زیادہ بات مجھے جاننے کا اشتیاق تھا کہ یار یہ آیا کیوں ہے اس ٹوٹی پھوٹی گلی میں اور ٹوٹے سے مکان میں۔
یعنی یہ ایک دیکھنے میں عوامی ایکٹ ہے کہ کسی بھی ورکر کے گھر کھانے پر آجانا۔ خیر جی عوام کے دل میں ہوگا کہ کتنا سادہ بندہ ہے عام سڑکوں پر پھرتا یہ وہ سب ووٹ لینے کے طریقے ۔ ان سب کو جانتا میں ۔ یہ کام آتے ہیں ہمیں بھی وہ علیحدہ بات کہ ہم مشہور نہیں ویسے یہ رانا صاحب کے جو داماد ہیں ان بھائی صاحب سے زیادہ فیصل آباد میں لوگ مجھے جانتے اور اگر حقیقت میں الیکشن ہو تو میں اسے ہرادوں یہ کوئی ایگزیجریشن یعنی بڑھا چڑھا کر بات نہیں کررہا حقیقت یہ ہی ہے کیونکہ میں سارا دن باہر پھرتا اور اندازہ ہو جاتا کہ کدھر جارہی عوام۔ خیر اب میں جس جگہ کھڑا یہ منظر دیکھ رہا تھا وہاں میرے علاوہ قریب قریب سارے ہی اس جوان لڑکے کے اس عوامی ایکٹ سے متاثر تھے۔ میں دلچسپی رکھتا تھا کہ اب اس کو بلایا کیوں ہے۔ یعنی وجہ کیا ہے بلانے کی۔ یہ بھی پتا چل گیا جی کہ کوئی فوجی رٹائرڈ ہیں ، اور کچھ بہکی بہکی باتے کرتے ہیں انہوں نے سفارشیں اور چاپلوسیاں کر کے بلایا۔ میں اب اس بات پر حیران تھا کہ اس غریب آدمی کو جو اپنی پینشن پر گزارا کرتا، ضرورت کیا پیش آئی کہ وہ اتنا خرچہ کرے۔ تو یہ بھی معلوم ہوا کہ اس بابا جی نے محلے میں اپنا روب شوب بنانے کے لیے بلایا۔
میں اس وقت سے اب تک یہ بات یاد کر کے ہس رہا ہوں کہ کیا سوچ ہے۔ یعنی بیساکھیوں پر کھڑا روب۔ اب زرا آپ کو اس داماد صاحب کا ایک قصہ سنا دوں۔ یہ نو مئی کے بعد اس کالونی سے کافی بندے اٹھائے گئے جب یہ رانا صاحب کے پاس وزارت داخلہ تھی۔ تو اس وقت مجھے ایک رکشہ ڈرائیور ملا جو کہ نون لیگ کا سپوٹر تھا اور مجھے ویسے بھی عوامی رائے جاننے کا شوق تو میں نے پوچھا کہ جی کتنے اٹھا لیتے ہیں ایک دن میں آپ کے رانا صاحب ۔ تو وہ کہنے لگا بابو جی سچی گل دساں مینوں رانا صاحب دے ڈیرے تے سدیا سی۔ اب وہ پنجابی میں بتارہے تھے لیکن میں اردو میں رپیٹ کرتا ہوں کیونکہ کوئی برگر یا ممی ڈیڈی بچہ بھی پڑھ رہا ہوگا۔ تو کہنے لگا کہ مجھے وہاں رانا صاحب کے اسسٹنٹ نے بلایا تھا کہ آپ کی گلی سے کچھ بندے اٹھانے ہیں پی ٹی آئی کے اور ہماری مدد کریں ۔ میں نے اسے کہا کہ مدد کیسے؟ کہتا کہ جی یہی بابو جی کوئی ٹائم آنے جانے کا تاکہ جس وقت وہ میسر ہو تو پکڑ لیں۔ کہتا جی مجھے کہتے کہ تمہارے بیٹے کو مالی بھرتی کروا دیتے۔ کہتا کہ میرے سے رانا صاحب کا اسیسٹنٹ یہ باتیں کررہا تھا کہ اوپر سے یہ رانا صاحب کا داماد آگیا اور پوچھنے لگا کہ ہاں بھئی کوئی بات نہیں بنی؟ کہتا کہ میں نے کیا حوصلہ اور کہا کہ ،۔
دیکھو شہریار صاحب میں نے اپنی عمر ان سب محلے داروں کے ساتھ گزاری ہے اور میرا دل نہیں کرتا کہ اپنے محلے کی بہن بیٹی کو تکلیف پہنچاؤں اس کے شوہر یا بھائی کو اٹھوا دوں۔ کہتا میں نے کہا کہ جی آپ کے ہماری کالونی میں شاید میرا اکیلے کا ہی ووٹ ہے کوئی آپ کو ووٹ نہیں ڈالے گا کیونکہ یہ ظلم ہے اور میں یہ نہیں کرسکتا۔ وہ رکشے والا کہتا کہ میں واپس آگیا۔ خیر بندے انہوں نے پھر بھی اٹھا لیے لیکن میں نے کوئی مخبری نہیں کی ۔ مجھے آج اس داماد صاحب کے اس غریب آدمی کے گھر پر آنے کے عمل پر حیرت ہورہی تھی کہ یہ بندہ آج ان کے غریب خانے پر آکر بہت عوامی بنا ہوا یہ کل یہ ان کو جبری طور پر گم شدہ کروا رہا تھا۔ یہ کیا ان کا کام کرے گا اور کیا یہ کسی غریب کی بیٹی کی گزرتی عمر کی تکلیف کو محسوس کرے گا۔ یعنی کہ یہ سب بہروپئے ہیں ؟ اور ہم سب کن بنیادوں پر لوگوں کا انتخاب کرتے ؟ آخر کیسے آئے گا یہاں کوئی عادل؟
اللہ تعالیٰ ںس ہمارے ملک پر رحم فرمائے آمین
دوسری کہانیوں کے لیے یہاں “اردو کہانیاں” پر کلک کریں۔