محبت ہوتی ہے تو تازہ محبت کا نشہ انسان کو بالکل بے خوف کردیتا ہے ۔ شروع میں یہ نشہ انسان کو وہ خوشی کا احساس دیتا ہے جو کہ شاید دوبارہ میسر نہ ہو ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان جو تازہ محبت کے نشے میں بہادر اور خوش ہوتا ہے ، وہ آہستہ آہستہ بزدل ہو جاتا ہے اور خوشی غم میں بدل جاتی ہے ۔ کبھی محبوب کا سامنا کرنے کا خوف، کبھی اس بات کا خوف کہ اگر وہ نہ ملا تو؟ ایسے بہت سے خوف اور سوچیں اسے بزدل بنا دیتی ہیں ۔ محبت کا اصول ہے کہ یہ ہمیشہ وہیں پنپتی ہے جہاں اسے معلوم ہو کہ دستک کا جواب نہیں آئے گا ۔ محبوب کو کسی کا ہوتا دیکھنا تو شاید آسان کوگا لیکن اس سچ کے ساتھ جینا بے حد کٹھن اور مشکل ہے کہ اس کا اندازہ شاید تازہ محبت کی خوشی کو بھی نہیں ہوگا۔ اگر تب اس خوشی کو بھی اس بات کا احساس ہو کہ یہ محبت کا سفر دراصل اس ریل گاڑی کا سفر ہے جس پر انسان سوار تو ہوتا ہے مگر کبھی اپنی منزل پر اتر نہیں پاتا۔ محبت لاحاصل ہی ہوتی ہے اکثر، شاید مزہ بھی اسی محبت کا ہے۔
انسان کی فطرت میں ہے کہ جو چیز اسے نہ ملے اسے ملنے کی خواہش کے وسوسے اتنے سنہرے ہوتے ہیں کہ اگر حقیقت میں وہ مل جائے تو شاید اتنا دلکش احساس نہ ہو ۔ یہ محبت ہستے بستے انسان کی زبان پر تالا لگا دیتی ہے اور انسان دور ایک کٹھن سفر پر نکل جاتا ہے ۔ دنیاوی مجبوریاں اسے بہت کچھ کرنے پر مجبور کر تو دیتی ہیں لیکن شاید جو محبت اس کے دل میں گھر کر چکی ہوتی ہے ، وہ محبت خوراک کے طور پر اس شخص کی مسکراہٹ کھاتی ہے اور ہمیشہ کے لیے اس کے دل کے کسی انجان کونے میں پنپتی رہتی ہے ۔ اسی محبت کے حصول کے لیے انسان ہمیشہ امیدوں کے دیئے جلائی رکھتا ہے اور یہ خیالی دنیا انسان کو کبھی حقیقی دنیا میں آنے نہیں دیتی۔ انسان کو لگتا ہے کہ شاید اگر میں مسکراؤں گا تو میری محبت کو لگے گا کہ مجھے اب اپنی محبت سے محبت نہیں رہی۔
اس طرح اچھا بھلا ہستا کھیلتا ماں کا لال محبت کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے اور ماں سمجھتی ہے کہ شاید زمہ داریوں نے اس کے لال کی مسکراہٹ چھین لی۔ حالانکہ جس نے مسکراہٹ چھینی ہے وہ تو اس کے لال کی ذمہ داری بھی نہیں ۔ اس ماں کے لال کو ذمہ داریوں نے خاموش نہیں کیا بلکہ اسے اس دکھ نے خاموش کیا کہ دور پار بیٹھی ایک حسین حسینہ جو کہ کسی اور کی ذمہ داری ہے، اگر وہ میری ذمہ داری ہوتی تو زندگی کتنی حسین ہوتی۔ ماں کا لال ذمہ داریوں سے نہیں بلکہ کسی کی ذمہ داری نہ ملنے کے دکھ کو دل میں اتارے پھرتا ہے۔ ایسی ہزاروں داستانیں ، ہزاروں لا حاصل محبتوں کے قصے صرف ڈائریوں کے صفحات پر لکھے رہ جاتے ہیں اور ان قصے کہانیوں کو کبھی کوئی اختتام نصیب نہیں ہوتا ۔