آپ سب ایک منٹ کے لیے بتائیے کہ آپ لوگ کیا سوچ رہے ہیں ۔ آپ یقین کریں آپ یہی سوچ رہے ہیں کہ میں کیا سوچ رہا ہوں، مگر مزے کی بات یہ ہے کہ اس کے بعد آپ کیا سوچ رہے ہیں ۔ اس سے بھی زیادہ مزے کی بات یہ ہے کہ اب آپ یہی سوچ رہے ہیں کہ کیا میں واقعی یہ سوچ رہا ہوں کہ میں کیا سوچ رہا ہوں ؟
گھبرائیں نہیں پڑھتے رہے ۔ اب جو میں کہنے جارہا ہوں اس کے بعد آپ پچھلے سوال کو بھول جائیں گے۔ اب میں خود بتا دیتا ہوں کہ آپ سوچ رہے ہیں کہ اب آگے میں کیا کہنے جارہا ہوں ۔ آپ غصہ مت کیجئے مذاق کررہا تھا ۔ اب بالکل سنجیدہ باتیں کروں گا بس آپ جڑے رہیئے ، جڑا رہنا بہت ضروری ہے ۔ میں نے ابھی کہا کہ میں مذاق کر رہا تھا تو اسی سے مجھے بات یاد آئی کہ میرے ابا کے ایک دوست ہوا کرتے تھے اور کافی قابل تھے۔ وہ عموماً میرے ساتھ ملکی حالات اور عمر کے مختلف حصوں میں انسانی رویوں پر بہت بات کرتے تھے ۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ اب نہیں ہیں بالکل ہیں ۔ اللہ تعالیٰ انہیں سلامت رکھے آمین بس اب بہت عرصہ ہوگیا قریب پانچ سال تو ان سے کبھی ملاقات نہیں ہو سکی۔
اچھا اب ملکی حالات اور عمر کے مختلف حصوں میں جو رویہ انسان اختیار کرتا، ان کا کوئی جوڑ تو سمجھ میں خاص نہیں آتا لیکن بس یہ سمجھ لیں کہ ان کی مہارت ان دو مضامین میں تھی تو وہ اسی پر بات کرتے تھے ۔ ایک دن نماز سے واپسی پر کہنے لگے کہ انسان کا رویہ بدلتا ہے عمر کے ساتھ ساتھ ۔ مجھے بچپن میں مٹی سے کھیلنا پسند تھا اب میں سمجھتا ہوں کہ کپڑے گندے ہو جائیں گے ۔ میں سر ہلاتا رہا تو رک کر کہنے لگے کہ حنظلہ ایک چیز ہے جو عمر کے کسی بھی حصے میں نہیں بدلتی ۔ میں نے حیرت سے پوچھا کہ وہ کیا تو کہنے لگے کہ مذاق۔ یہ کہہ کر پھر میرا ہاتھ پکڑ کر چل پڑے ۔
کہتے اب تم سوچ رہے ہو گے کہ وہ کیسے ؟ اچھا وہ خود ہی سوال کر کے خود ہی جاب دے رہے تھے ۔ میں عموماً چپ نہیں رہتا لیکن ان کی بات بڑی حیران کن تھی۔ میں سوچ رہا تھا کہ بچپن میں مذاق کیسے ہوتے ہوں گے یعنی کوئی بیٹھا ہے اور بچہ آکر زور سے کان میں کہ دے ٹھا لیکن اب ایک چالیس سال کا آدمی کسی کے کان میں ٹھا کہے تو اگلا اسے مذاق تھوڑی نہ سمجھے گا۔ خیر ابھی یہ سوال میرے ذہن میں چل رہے تھے کہ وہ کہتے حنظلہ محمود ۔ وہ میرا پورا نام لیتے تھے کہنے لگے کہ حنظلہ محمود مذاق عمر کے ساتھ نہیں بدلتا اور جو مذاق میں کہا جاتا وہ عموماً حقیقت میں بندے کے خیالات ہوتے ہیں ۔ کہنے لگے کہ میں مذاق مذاق میں کسی کو کہہ دوں کہ یار تم بے تکی باتیں کرتے ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ میرے ذہن کے کسی گوشے میں یہ خیال موجود ہے کہ فلاں کی باتیں بے تکی ہیں ۔
میں نے کہا کہ پھر اس بچے کے مذاق کا کیا جو کسی کے کان میں ٹھا کر کے بھاگ جاتا ہے ۔ کہنے لگے کہ اسے آپ معصوم سی شرارت سمجھیں مذاق نہ سمجھیں ، پھر کہنے لگے کہ چلو اگر مذاق بھی سمجھیں تو ٹھا کہنے والے بچے کے دل یا ذہن میں کہیں نہ کہیں کسی بلی کا یا کسی جانور کا ڈر جس سے اس کے امی ابا نے اسے سولانے کے لیے ڈرایا ہوگا، موجود ہے ۔ اب وہ بچہ ہے اس ڈر سے باقی سب کو بھی اسی طرح ڈرانا چاہتا جیسے اسے اس کے امی ابا ڈراتے۔ اسی لیے تو وہ کان میں ٹھا کہہ کر بھاگ جاتا ، کیونکہ کہیں نہ کہیں اس ٹھا کا خوف کسی نہ کسی صورت میں اس کے ذہن میں موجود ہے اب وہ خوف ٹھا کر کے بھاگنے کے بعد پکڑے جانے کی صورت میں بھی ہوسکتا ۔
خیر بات کہاں سے کہاں لے آیا کہہ رہا تھا کہ جو شروع میں باتیں کیں وہ مذاق تھیں۔ تو وہ میرے ابا کے دوست کے بقول مذاق کا تعلق حقیقت سے ہوتا ہے تو بھائی وہ مذاق نہیں تھا ۔ آپ کیا سوچ رہے ہیں اس سوال میں پھسا کر میں نے آپ کی توجہ حاصل کرلی۔ ایک بات سے آپکا تجسس منتقل ہوا دوسری پر، آپ نے میرا یقین کیا کہ یہ آگے ٹھیک بات کرے گا، میں نے پھر یقین توڑا، پھر آپ نے یقین کیا ، میں نے پھر توڑا تو جو بھی اس تحریر کو مکمل پڑھ پایا ہے اس کے یقین کا قاتل تو میں ہوں لیکن آپ بھی تو سوچیں کب تک میرے جیسوں کی افسانوی باتوں پر یقین کرتے رہیں گے ۔ کب تک آپ اپنا وقت ہر پر کشش چیز اور تجسس بھری باتوں کو سوچنے میں ضائع کرتے رہیں گے ۔
دوسری کہانیوں کے لیے یہاں “اردو کہانیاں” پر کلک کریں۔