زندگی مختلف حالات و واقعات کا مجموعہ ہے ۔ میرے جو حالات ہیں وہ کسی کے لیے بالکل عام سی بات ہوگی، اسی طرح کسی دوسرے پر جو آسانیوں یا تکالیف کی بارش ہو رہی ہے ہوسکتا ہے وہ میرے لیے بالکل عام سی بات ہو۔ مثال کے طور پر مجھے اچھے سے یاد ہے کہ جب میں نے اپنا زاتی کمپیوٹر لیا تو اس وقت وہ لینے کی جو حد خوشی تھی وہ یہ تھی کہ اب اس پر میں پینٹ کرسکوں گا۔ تب میں دوسری جماعت میں تھا تو ہمیں سکول میں کمپیوٹر پر ڈرائنگ سکھائی جاتی تھی ۔ ایک وہ عام سا ایپ ہوتا تھا تو خیر مجھے بے حد خوشی تھی کہ جو کام میں سکول میں ہفتے میں ایک بار صرف چالیس منٹ کے لیے کرسکتا تھا وہ اب میں اپنی مرضی سے کسی بھی وقت کرسکوں گا کیونکہ گھر کمپیوٹر آگیا تھا۔ اس وقت اگر کوئی مجھ سے پوچھتا کہ آپ کی خوشی کی وجہ کیا ہے تو عین ممکن ہے کہ میں یہی جواب دیتا کہ اب میں پینٹنگ اپنے کمپیوٹر پر کرسکتا ہوں ۔ اس وقت یہی لگتا تھا کہ یہ حد ہے اس سے زیادہ اور کسی چیز کی تمنا نہیں۔
اس وقت کچھ کالونی کے لڑکے کمپیوٹر پر گیمز کھیلا کرتے تھے ۔ شروع میں تو ان کا عمل شاید اتنا نہ بھایا ہو مگر آہستہ آہستہ دل للچایا اور بات ڈرائنگ سے ویڈیو گیمز پر آگئی ۔ پھر کسی دوست کے بڑے بھائی نے اسے اپنا لیپ ٹاپ دیا جو اس کے استعمال میں نہ تھا تو ہمیں کمپیوٹر سے الجھن ہونے لگی اور صبح سویرے ابا کے کانوں میں ڈالنا شروع کردیا کہ اب خوشی ہماری نے اپنا پلاٹ وسیع کرلیا ہے اور ناجائز جگہ پر قبضہ کرتے ہوئے اب خوشی کی حد لیپ ٹاپ کی سکرین ہے۔ ابا جی نے ہمیشہ سر تسلیم خم کرتے ہوئے ناجائز حدود کو جائز مانا اور مجھے اٹھا کر لیپ ٹاپ کی سکرین پر بٹھا دیا ۔ اب کوئی پوچھتا کہ یہ حد ہے خوشی کی ؟ تو شاید میں جواب دینے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتا کہ نہیں شاید کوئی اور خواہش پیدا ہوجاۓ۔ کچھ عرصہ بعد لیپ ٹاپ کی سکرین کی رونق بحال رکھنے کے لیے انٹرنیٹ کی موجودگی لازم ہوگئی۔ اسی طرح انٹرنیٹ کے بعد لیپ ٹاپ چلانے کے لیے کمر کا سیدھا رکھنا مجھے مشکل لگنے لگا اور ابا جی نے مجھے موبائل لے دیا اور مجھے لگا کہ اس دور کا بہترین فون میرے پاس ہے ۔
خیر وقت نے کتنے اوراق پلٹے تو میں یہاں تک پہنچا کہ اب میں خوشی کی حد ڈھونڈتا ہوں تو موجودہ دور کی رنگینیاں اور ان کا حصول مجھے خوشی کی حد دکھائی دیتے ہیں ۔ اس عمر میں مجھے کسی کا کوئی خیال نہیں ، میں بدتمیز بھی ہوں، بےخوف بھی۔ جوانی کا غرور اپنی جگہ موجود ہے اور جس پانی کے بلبلے کی چاہت نے میری طبیعت میں یہ سختی پیدا کی ہے اور لحاظ ختم کیا ہے، اس بلبلے کی چاہت میں مجھے نہ تو پہلا کمپیوٹر یاد ہے اور نہ کمپیوٹر لے کر دینے والا۔ صورت حال یہاں تک آچکی ہے کہ اب کمپیوٹر لے کر دینے والا بات کرتے ہوئے ڈرتا ہے کہ کہیں بلبلے کی چاہت میں یہ انجان ڈوب نہ جاۓ۔ شاید اس کو اپنی عزت نفس کے مجروح ہونے کا خدشہ بھی ہوگا یا شاید میری ٹھاٹھیں مارتی جوانی کے رعب و دبدبے سے ڈر کر وہ خاموش ہوجاتا ہو۔
شاید وہ جب سمجھا کر تھک جاۓ تو حالات کے رحم پر مجھے چھوڑ دے کہ جیسے اس کی کامیابی اور خوشی کی حد صرف کمپیوٹر پر ڈرائنگ کرنا تھا تو ویسے ہی وقت کی اس دوڑ میں جب اس کے بال سفید ہوں تو اس کو معلوم ہو کہ اب بس اس کے بالوں کی سفیدی یہی آواز دیتی ہے کہ عمر گزر چکی، پانی کا بلبلہ اب ہاتھ آنا تو دور کی بات نظر بھی نہیں آتا۔ چلو اب زرا ٹھاٹھیں مارتی جوانی کو سفید بالوں اور کپکپاتے ہاتھوں کی چادر میں لپیٹے ہوئے لڑکھڑاتی ہوئی زبان سے کہو کہ میری خوشی نے جو پلاٹ کمپیوٹر کی ڈرائنگ سے شروع کیا تھا وہ ڈہہ چکا ہے اور اب تو بس میری کامیابی اور خوشی کا راز یہی ہے کہ نماز روزہ کرو اور اللہ کو راضی کرو۔ اس کی اس بات کے بعد اسی کا بیٹا اسی کی طرح اپنے باپ کو کہے کہ ابا جی خود عمل نہیں کیا اب جب حکومت نے ناجائز قبضے چھڑواۓ تو مسجد کے پلاٹ پر ناجائز قبضے کا سوچ لیا؟
دوسری کہانیوں کے لیے یہاں “اردو کہانیاں” پر کلک کریں۔