ماں کے بارے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ کسی شخص کے لیے ساری دنیا کے دل سے رحم اور محبت ختم ہو سکتی ہے مگر ایک ماں کا دل ایسا ہے کہ ہزار برائیوں کے باوجود وہ ہمیشہ اولاد کے لیے دعاگو رہتی ہے ۔ اس کی نظریں بانہیں پھیلائے ہمیشہ اپنے ناکام ، ٹھکراۓ ، چور، ڈاکو، بیٹے کے لیے ہمیشہ منتظر رہتی ہیں ۔ عورت جو بہترین روپ میں اس دنیا میں اپنی زندگی بسر کرتی ہے وہ ماں کا روپ ہے ۔ عام ذہن اس نازک دل سے سخت رویوں کو تسلیم کرنے سے قاصر ہے ۔
ہمارے ہاں چائلڈ لیبر یعنی کم عمر بچوں کو کام پر رکھنے کا رجحان بہت زیادہ ہے ۔ اکثر آپ کو چھوٹے چھوٹے بچے چاۓ کی میز صاف کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ کچھ اپنے معصوم ہاتھوں کو گاڑی کی سیاہی سے رنگ کر بچپن گزارتے ہیں اور کچھ کسی اجنبی انسان کو صاحب کہہ کر چاۓ پیش کرتے ہوئے بچپن کے حسین دن گزارتے ہیں ۔
آج سے کچھ عرصہ پہلے اپنے دوستوں کے ساتھ ایک ڈھابے پر بیٹھا تھا ۔ چھ سات سال کے لڑکے آپس میں کھیل رہے تھے ۔ وہ اسی ڈھابے پر کام کرتے تھے ۔ عادت سے مجبور میں انہیں دیکھتا رہا اور تھک ہار کر پوچھا کہ ابا کیا کرتے ہیں ۔ ایک نے کہا مزدوری کرتے ہیں اور دوسرا کہنے لگے کہ ابا اللہ کو پیارے ہو گئے ۔ میں نے سوچا کہ شاید اسی وجہ سے مزدوری کرتا ہو کہ اماں اکیلی ہے اور گھر میں کوئی کمانے والا نہیں مگر جب میں نے والدہ کا پوچھا تو ایک کہنے لگا وہ سلائی کرتی ہیں اور دوسرا بولا کہ میری اماں بھی اللہ کو پیاری ہوگئی ۔ سن کر دل کھینچ سا گیا۔ ابھی اسی تکلیف میں تھا کہ دوسرا لڑکا بولا جھوٹ کیوں بولتے ہو کہ تمہاری اماں مر گئی ، سچ بتاؤ نا ۔ مجھے شاید اس وقت نہیں پوچھنا چاہیے تھا لیکن میں نے فوراً سے پوچھا کہ سچ کیا ہے تو وہ لڑکا نہیں بولا جو کہہ رہا تھا کہ اماں میری اللہ کو پیاری ہوگئی ۔
دوسرا لڑکا ہی کہنے لگا کہ اس کے ابا جب نہیں رہے تو اماں اس کی نے دوسری شادی کرلی ۔ یہ بیچارہ اکیلا رہ گیا۔ اب کام کرتا ہے اور گھر اس کا کوئی نہیں ۔ ابھی اسی حیرانی میں تھا کہ وہ خاموش بچا ناجانے کیا اس کے ذہن میں آیا اور کہاں سے اس نے یہ بات کی کہ جب مجھے ماں نے چھوڑ دیا تو میرے لیے تو مر گئی نا۔ چاۓ کا کپ ناجانے پھر میں کیسے ختم کر پایا۔ آنکھیں حیران تھی ۔ ماں کے چھوڑ جانے سے زیادہ حیرانی بچے کے جواب پر تھی۔
میرا چھوٹا بھائی بڑا سوشل ہے ۔ یعنی اس کو بچوں سے گھلنا ملنا بہت پسند ہے ۔ وہ ماشاءاللہ چار سال کا ہے ۔ اس چار سالوں میں اس کے میرے سے زیادہ دوست ہیں ۔ گلی میں نئی فیملی شفٹ ہوئی ۔ دو عورتیں ، ایک بیس سال کا لڑکا اور ایک چھوٹا چار سال کا بچہ ۔ یہ ان کی کل فیملی تھی۔ بھائی میرا محمد ان کے چھوٹے بیٹے کے ساتھ اٹیچ ہوا تو یہ بھی شرارتی وہ بھی شرارتی ۔ خوب جمی دونوں کی۔ آہستہ آہستہ مجھے محمد اپنے انداز میں بتاتا کہ ابراہیم کا بھائی اسے کمرے میں لاک کردیتا ہے۔ محمد کی بات مجھے سمجھ نہیں آئی پر وہ اس سے کھیلنے کی زذ کرنا چھوڑ گیا۔ محمد میں یہ تبدیلی مجھے کوئی خاص محسوس نہیں ہوئی مگر پھر ایک دن میں نے ابراہیم کے رونے کی آواز سنی ۔ اونچی اونچی چلانا رونا۔ سب بڑا عجیب تھا۔ پھر جب یہ رونے کی آوازیں عام ہوگئی تو معلوم ہوا کہ ابراہیم کی ماں اسے چھوڑ کر کسی اور سے شادی کر بیٹھی ۔
ابراہیم کے والد دوبئی کام کرتے ہیں اور وہ اپنی پھوپو کے پاس رہتا ہے ۔ پھوپو کا بیٹا اسے مارتا بھی ہے اور کمرے میں بند بھی کرتا ہے ۔ ابراہیم کے والد سے ماہانہ اس کا خرچ بھی لیتے ہیں ۔ ابراہیم کی ماں نے ناجانے کیوں یہ فیصلہ کیا۔ مگر میں سمجھ نہیں پایا کہ ماں ایسی بھی ہوتی ہے ؟ یہ دو واقعات نے مجھے سوچ میں ڈال دیا کہ ماں شاید سنگ دل بھی ہوتی ہے ۔ مگر میں اس بات کو ماننے سے قاصر تھا۔
بلوچستان جانا ہوا تو رات باہر ہی سوتے تھے ۔ وہاں گھروں کی صورت حال ایسے ہے کہ پتھروں سے گھر بنے ہیں اور دیواریں چھوٹی چھوٹی ہیں ۔ بلوچستان میں رات کا موسم اتنا ٹھنڈا ہوجاتا ہے کہ آپ گرمیوں میں بھی رات بغیر پنکھے کے گزار سکتے ہیں ۔ مطلب وہاں رات کو جو لوگ باہر سوتے انہیں پنکھے کی خاص ضرورت نہیں رہتی ۔ اکثر میں نے رات کو لیٹنا تو رات کو آسمان دیکھتے رہنا ۔ ناجانے کب آنکھ لگ جانی۔ جس قدر پہاڑوں کے درمیان آسمان کا نظارہ خوبصورت تھا نیند آئی بھی اڑ جاۓ ۔
خیر تو پنکھے چلتے نہیں تھے۔ دیواریں چھوٹی چھوٹی ہوتی تھی ۔ تو بالکل ایسے اکثر رات کو محسوس ہونا جیسے کوئی خاموشی سے روتے ہوئے کچھ بڑبڑا رہا ہو۔ دیواریں چھوٹی چھوٹی تو تھیں مگر وہاں دوسرے گھروں میں جھانکنے کا رواج نہیں ۔ اپنی زبان میں کوئی عورت رات کو روتے ہوئے کچھ بڑبڑایا کرتی تھی ۔ پٹھان لوگ بے حد احترام کرتے مہمان کا۔ تو میں نے اپنے میزبان سے ایک دن ہمت کرکے پوچھا کہ یار رات کو کسی ظعیف عورت کے بڑبڑانے اور رونے کی آواز آتی ہے یہ عورت کون ہے اور کیوں روتی ہے ؟
اس نے بتایا کہ 2011 میں بلوچستان میں بے حد سیلاب آیا گاؤں کے گاؤں ڈوب گئے ۔ ہم سب کے گھر سیلاب میں بہہ گئے ۔ ہمیں نکل مکانی کا کہا گیا ۔ یہ جو عورت رات کو روتی ہوئی سنائی دیتی ہے ان کا نام گرزین بی بی ہے ۔ ان کی ایک بیٹی تھی جو معذور تھی۔ اس نکل مکانی کے دوران یہ لوگ اس کو وہی چھوڑ آئے ۔ وہ سیلابی ریلے میں بہہ گئی یا بچ گئی ۔ کسی کو کچھ معلوم نہیں ۔ لیکن گرزین بی بی ماں ہے اور اب بوڑھی ہو چکی۔ یہ کہتی ہے کہ میرے کانوں میں اپنی بیٹی کے چیخنے کی آوازیں گونجتی ہیں ۔ یہ جو رات کو بڑبڑاتی ہے یہ دراصل اپنی بیٹی کو یاد کرتی ہے جسے یہ کم وسائل کی وجہ سے وہی چھوڑ کر آگئی ۔ یہ اب گاؤں جاتی ہے لیکن اب سالوں گزر گئے ۔ اس کا کوئی نشان باقی نہیں ۔ لیکن یہ میلوں کا سفر طے کر کے اپنی بیٹی کی یاد میں اسے تلاش کرنے جاتی ہے۔
اس واقعے کو سننے کے بعد میرا دل کیا کہ میں گرزین بی بی سے ملوں ۔ بلوچی عورتیں اتنا مردوں سے نہیں ملتی۔ مگر میرے میزبان نے مجھے کہا کہ میں ملواؤں گا۔ اس نے مجھے یہ کہہ کر ملوایا کہ بی بی یہ حنظلہ ہے بہت دور سے آیا ہے بلوچستان رہنے۔ گرزین بی بی نے اپنی زبان میں کچھ بولا تو میرے میزبان نے کہا کہ آپ کو دعا دے رہی ہے اور کہہ رہی ہے کہ ماؤں کی مجبوریوں ہوتی ہیں ورنہ وہ اولاد کو کبھی نہ دور بھیجیں ۔
اس کے بعد میں کچھ ماہ بلوچستان رہا مگر دوبارہ کبھی گرزین بی بی سے ملاقات نہ ہو سکی مگر ایک ہی ملاقات میں مجھے ہوٹل پر کام کرنے والے لڑکے اور ابراہیم کی ماں کا چھوڑ کر جانا سمجھ آ چکا تھا۔
گرزین بی بی نے بتلا دیا تھا کہ مائیں سنگ دل نہیں ہوتی ماؤں کی مجبوریاں ہوتی ہیں۔
دوسری کہانیوں کے لیے یہاں “اردو کہانیاں” پر کلک کریں۔