یونیورسٹی ہال

Gemini Generated Image of a university Hall with participants from multiple universities.

اس دن میں کلاس لینے گیا تھا مگر میم کہتی کہ آج خواتین کے مطلق ایک سیشن ہے جہاں لڑکوں نے بھی آنا ہے۔ میرے ساتھ میرے چند دوست تھے اور میں بیٹھنے لگا تو میرے دوست اور میری کلاس کی چند لڑکیوں نے بولا کہ سوال مت کرنا، منہ بند رکھنا۔ سننے میں آیا تھا کہ اس دن فیصل آباد میڈیکل یونیورسٹی اور جی سی یونیورسٹی برائے بیبیاں فیصل آباد کے طلبا بھی موجود تھے۔ میں آج یہ خیال کر رہا تھا کہ یہ مہمان لڑکیاں تو بہت اگلے لیول کی سوچ رکھتی ہوں گی اور تگڑے سوال کریں گی جو بھی آیا سپیکر ۔ میں نے سوچا ایک پل کے لیے کہ میری ذہانت تو ان ڈاکٹروں کے مقابلے میں صفر ہے ، میں تو ایک مضمون یاد کرنے کی قابلیت نہیں رکھتا اور یہ تو انسان کے جسم کے حصوں کو توڑ کر جوڑنے کی صلاحیت بھی چند مہینوں میں رکھیں گی انشاء اللہ۔ سیشن کے بعد یاد آیا کہ یہاں میری ایک عدد کزن جو کہ دور سے کہیں سے لگتی وہ بھی اسی میڈیکل کالج میں پڑھتی خیر تب بہت دیر ہو چکی تھی ، شاید وہ نہ آئی ہو کیونکہ اس کی شکل کا مجھے نہیں پتا۔ خیر میں بیٹھ گیا اس سوچ سے کہ آج تو سیکھنے آیا ہے بندے بہت تگڑے ہیں ۔

پانی کی بوتل یونیورسٹی والوں نے ہمیں دی شاید اس وجہ سے کہ مہمانوں کو دینی تھی تو ہم چند جو کہ روز کے مفت خور ہیں ان کو بھی دینی پڑ گئی ۔ میں کسی سیشن میں جاوں تو ایک پیج اور پینسل ساتھ رکھتا ہوں ۔ یہ کام میں نے سپیکر کے آنے تک ملتوی کردیا کہ کوئی آئے تو پیج نکالتا ہوں اور پانی کی طرف زیادہ دھیان رکھا۔ میرے دوست نے تلاوت کی اور ہماری ہی ایک ہم جماعت نے نعت پڑھی۔ اس کے بعد خواتین کے دوپٹے اتر گئے اور سپیکر کا انتظار ہونے لگا۔ جو مہمان تھے ان میں ایک نجمہ افضل جو کسی دور میں مسلم لیگ ن کی ایم پی اے رہ چکی ہیں ، رانا افضل خان کی اہلیہ ہیں ۔ اب یہ الیکشن تو جیت نہیں سکتی، ہاں مگر اپنی بے ڈھنگ تقریر ہمیں سنانے چلی آتی ہیں ، ہمارے وی سی صاحب بھی خود میں ایک نون لیگ ہیں کیونکہ وزیر داخلہ رانا صاحب کے رشتے دار ہیں اور خوب امانتدار نہایت شریر ہیں ، جی بالکل شریر ہی لکھا ہے۔

یونیورسٹی میں اینٹ اٹھائیں تو رانا نکل آتا ہے ، جاٹ برادری ، گجر، کمبوہ ، آرائیں برادری یہ سب ملک سے باہر چلے گئے اور یونیورسٹی میں اب صرف رانا نظر آتا ہے ، خیر یہ نجمہ صاحبہ عورتوں کے ونگ کی چیرمین ہیں، اس لیے اکثر ہماری یونیورسٹی کی لڑکیوں کو الٹی گنتی تیزی سے بولنے کی مشق کراتی رہتی ہیں ۔ دوسری میڈم کا تعلق فیصل آباد میڈیکل یونیورسٹی سے تھا جو کہ وائس چانسلر کی جگہ ہمارے پاس آئی تھیں ۔ خیر میں پیج اور پینسل نکالنے والا تھا تو سپیکر صاحب آگئے میں نے ان کے خوف سے پیج اندر رکھ دیا کیونکہ وہ کوئی بھی ایسی بات بتانے کی قابلیت نہیں رکھتے تھے کہ بندہ اسے لکھے البتہ ان کا اور میرا بہت اچھا تعارف تھا اور جب انہوں نے مجھے دوسری لائن میں بیٹھے دیکھا تو مسکراۓ اور انگریزی بولتے ہوئے تھوڑی گھبراہٹ کا شکار ہوگئے ۔ اس کی وجہ دو ہوسکتی ہیں یا تو وہ بھی ہماری طرح مفت خوری میں پانی پینا چاہتے تھے یا پھر انہیں چند روز پہلے جو میرا اور ان کا سامنا ہوا سوال اور جواب کے سیشن میں وہ یاد آگیا ۔ خیر میں نے شرارتی انداز میں کہا کہ چلیں سر کریں شروع ۔ وہ پھر مسکرائے ۔ ہماری یونیورسٹی کے ساتھ جیل لگتی ہے تو نیٹورک کا مسئلہ رہتا ہے کہنے لگا۔ اتنی بڑی یونیورسٹی اور نیٹ کا مسئلہ ۔ میں نے کہا کہ سر جیل ہے ساتھ اس وجہ سے ،، خیر وہ موقع کی تلاش میں تھے اور کہنے لگے اچھا کیا علم میں اضافے کا باعث بنے آپ اور کہنے لگے بھائی کے لیے سارے تالیاں بجائیں بہت بڑی بات بتادی۔ مجھے اندازہ ہو گیا کہ یہ بندہ اس دن کے غم سے نہیں نکلا اور بدلے کی کوشش کررہا۔ میں نے بھی ڈھیٹ ہوکر ہاتھ کھڑا کیا اور سارے حال کا شکریہ ادا کیا۔ وہ پھر پریشان ہو گیا۔

خیر اس نے شروع کیا بولنا تو تقریباً پرانی باتیں ہی تھیں جو پچھلی ملاقات میں کی تھی۔ میں نے کہا کہ میں نے اس سے سوال نہیں کرنا آج زیادہ سمجھدار بچے تشریف فرما ہیں ۔ خیر کافی دیر تک وہ بولتا رہا اور کوئی نہ بولا۔ بالآخر میں نے کہا چلو پوچھ ہی لیتے ہیں ۔ وہ بھائی سمجھا رہے تھے کہ اگر آپ کاروبار کرنا چاہتے ہیں تو آپ لوگوں کی کمزوریوں کو ٹارگٹ کر کے اپنا پروڈکٹ بیچیں۔ جیسے کہ اگر آپ ایک شوارما شاپ پر کام کرتے ہیں تو پیاری پیاری تصویریں لگائیں تاکہ لوگوں کا دل للچائے۔ میں نے کہا سر کتنی بری بات ہے لوگوں کے جذبات کو استعمال کرنا اپنے فائدے کے لیے ۔ سب ہسنے لگ پڑے حالانکہ میں سیریس تھا۔ میں یہ سوچ رکھتا تھا کہ جو بندہ روٹی بھی مانگ کر کوئی رات کی بچی کھاتا ہے تو آپ اس کو کیسے شوارما کھلائیں گے ، اگر اسکا دل للچا گیا تو کیا ہوگا؟ اس کے پاس کوئی تصلی بخش جواب نہیں تھا تو میں نے کہا کہ ، سر میں آپکوایک اور مثال دیتا ہوں ۔

وہ بیچ میں بولنے لگے تو میں نے کہا آپ کو آخری دفع بھی بتایا تھا کہ سوال پورا سن لیا کریں ۔ وہ تھوڑا شرمندہ ہوا اور میں نے مثال دینا شروع کی کہ میرا ایک دفع لاہور ایمپوریم مال جانا ہوا تو وہاں ایک لڑکی ،روازے کے پاس کھڑی تھی اور بولی سر سنیے گا، میں اس وقت دہم جماعت کا طالب علم تھا تو اپنے آپکو سر کہتا سن کر میں نے سمجھا کہ میں شاید بوڑھا ہوگیا ہوں ۔ خیر میرا بھائیوں جیسا دوست ارسلان رزاق میرے ساتھ تھے اور وہ کہتے آو چلیں ۔ میں چلا گیا مگر پیچھے تین سے چار لڑکے گزرے تو وہ رک گئے اور وہ ظاہری طور پر نظر آتا تھا کہ وہ پیاری لڑکی دیکھ کر رکے۔ وہ لڑکی طوطے کی طرح اپنی بات بتانے لگی اور وہ سنتے رہے ۔ ان کو بات میں کوئی دلچسپی نہیں محسوس ہوتی تھی مگر آواز میں ضرور رکھتے تھے ۔ میں نے ارسلان بھائی سے پوچھا کہ یہ لڑکی کون ہے ؟ تو معلوم یوا کہ یہ کسی فلاحی ادارے کے لیے چندہ اکٹھا کررہی ہے اور سب کو بتاتی ہے کہ ہمارا یہ کام ہے اور ہمارا ادارہ اس طرح لوگوں کی مدد کرتا۔ خیر میں چل پڑا اس سوال کے ساتھ کہ لڑکی کی جگہ لڑکا کیوں کھڑا نہیں کیا؟ تب میں نہ سمجھا ۔ خیر کچھ عرصہ بعد جب کتابیں پڑھنے کا شوق لاحق ہوا تو اشفاق احمد صاحب کا ڈرامہ پڑھا جس کا نام تھا شاہلا کوٹ۔ مختصر یہ کہ اس ڈرامے کا سبق یہ تھا کہ لوگ اپنا کام نکلوانے کے لیے اس کی کمزوری کو استعمال کرتے۔ پھر میں سمجھا کہ اگر وہاں مال میں لڑکی نہ ہوتی تو لڑکے کبھی بھی نہ رکتے اور نہ پیسے اکٹھے ہوتے۔

میں نے کہا مرد اور عورت ایک دوسرے کو کھینچتے ہیں تو آپ کی کیا رائے ہے کہ میں اپنے کاروبار کے لیے لوگوں کے جذبات کے ساتھ کھیلوں ؟ امید کے مطابق اس کے پاس اس کا کوئی بھی جواب نہیں تھا۔ اتنے میں ہماری میڈم بولی کہ بیٹے آپ کا آخری سوال تھا بس؟ میں سمجھ گیا کہ اب پاکستانی اپنے اصل کام کی طرف آگئے کہ آواز کو دباؤ اور جو مرزی کرواؤ ۔ میں باز آنے والا نہیں تھا تو میں نے کہا کہ سوال تو کرنے دیں ۔ اتنے میں سپیکر بولے جی جی میڈم کرنے دیں ۔ میں نے کہا سر پھر کیا خیال ہے عورتوں کو گھر ٹک کے بیٹھنا چاہیے ؟ وہ نو کمینٹ کہ کر مسکرائے اور سیشن میں ایک گانا لگا اور کام کرنے والی عورتوں کے احترام میں سب سے کہا گیا کہ کھڑے ہوجاییں ، میں کھڑا نہ ہوا اور بیٹھا رہا ںاقی سب کھڑے تھے۔ کیونکہ مجھے اگر اس لڑکی کی جگہ مال میں کھڑے کرتے تو میں کھڑا ہوجاتا۔

عورتوں کو ہر ایک کے سامنے کرکے ، عورت جو کہ چھپی ہوئی قیمتی چیز ہے اسے زبان زد عام کرکے ، بند کمروں میں گانے لگا کر کھڑا ہونا اگر عورت کا احترام ہے تو میں معافی چاہتا ہوں ، ایسا احترام میں نہیں کرسکتا ۔ میں سیشن لے کر باہر نکلا تو میری ایک ہم جماعت بولی کہ باتیں ٹھیک کرتا ہے مگر جس طرح کرتا ہے ، اسے اٹھا کر باہر پھینک دے بندہ۔ خیر میں نے، اٹھا کر باہر پھینکا والی بات پر غور کیا اور موٹر سائیکل کو کک ماری اور عزت سے گھر آنا مقصود سمجھا۔

دوسری کہانیوں کے لیے یہاں “اردو کہانیاں” پر کلک کریں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *