کچھ لمحے ہمیشہ کے لیے گھر کر جاتے ہیں ۔ میری اس سے اتنی شناسائی نہیں ، بمشکل اسے میرا نام معلوم ہوگا، مگر اس کی تو اک اک ادا کا علم رکھتا ہوں ۔ یکطرفہ محبت کے بہت سے مسائل میں سے ایک یہ ہے کہ اس میں آپ محبوب کو بتا نہیں سکتے کہ آپ اس کے لیے کیا کچھ کرسکتے ہیں ۔ سیڑھیاں چڑھتے ہوئےایک دم وہ میرے سامنے آئی ۔ وہ سامنے آئی تو سہم گئی ۔ سلام کیا اور اس بات کا اندازہ نہیں لگا سکتی کہ وہ تو انجان تھی اور سہم گئی ۔ میرا اس کی آواز کانوں میں پڑتے ہی دل تھم گیا ، جس قدر خواہش اسے دیکھنے کی تھی وہ محبت اور احترام میں دم توڑ گئی ۔
احترام سے آنکھیں تو نہ اٹھ سکی لیکن زبان نے سلام کا جواب دینے کی جسارت کی ۔ یہ ان سے محبت ہونے کے ابتدائی دنوں کی بات ہے ۔ اس واقعے سے قریب سال پہلے محبت نے بیج تو بو دیا تھا لیکن محبت کے پودے کو ظاہر ہونے اور اپنے آپ سے اقرار میں سال لگ گیا۔ میرا زندگی میں ان سے بس یہی مکالمہ تھا سلام اور والسلام ۔ ایک دو جملے اور بھی کہے انہوں نے لیکن میں ان کے جملوں کے جواب میں بس لمبی سانس بھر کر صرف “جی” کہہ سکا۔ قسمت بھی کیسے کیسے مکالمے کرواتی ہے ، بھلا جس سے محبت کی جاۓ اس کے اس سوال کے جواب میں سانس بھرنے کے علاؤہ کر بھی کیا سکتا تھا۔ پہلی بار مکالمے میں انہوں نے کسی کام کے سلسلے میں بات کرتے ہوئے پوچھا کہ آپ میرے لیے اس معاملے میں کیا کرسکتے ہیں ؟
جی تو چاہا کہ اس سوال کے جواب میں سال سے بند پڑی کتاب کے تمام صفحات کھول کر سامنے رکھ دوں ، مگر قسمت مکالمے تو کرواتی ہے لیکن جواب کی\ محلت نہیں ۔ ایسے میں ٹھنڈی آہ شاید ان تمام صفحات پر جمی دھول کو اڑا لے گئی ہو کہ وہ پڑھ سکیں مگر انہوں نے پڑھا یا نہیں پڑھا اس کے بارے میں جاننے کے لیے قسمت نے کبھی موقع نہیں دیا۔ اس سارے معاملے میں میری محبت کا اندازہ وہ تو ناجانے لگا سکی کہ نہیں ، مگر ارد گرد کے تمام درختوں نے اپنی ٹہنیاں ہلا کر مجھے اشارہ دیا کہ ساری دنیا شاید اس بات سے واقف ہو چکی ہے کہ وہ میری محبت ہے ۔
اس بات کو بہت عرصہ گزر گیا پھر اس کا نام کسی کے نام سے جڑگیا اور پھر ٹوٹے دل نے کبھی ہمت نہیں کی کہ پھر سے ٹھنڈی آہ بھرے اور یہ جان سکے کہ انہیں ان سلگتی آنکھوں کے پیچھے اس محبت کا اندازہ ہے جو مجھے ان سے ہے ۔ اس خبر کے بعد کبھی نہ قسمت نے موقع دیا نہ کبھی موقع قسمت سے مانگا۔ مگر خواہش دل کے کسی آخری کونے میں پڑی رہ گئی کہ کاش ایسا ہوتا یا ویسا ہوتا۔ اس یکطرفہ محبت کا لطف یہ ہے کہ یہ کبھی نہیں مرتی اور یہ کبھی وہ نظر آۓ تو آخری کونے سے نکل کر زبان پر تو آتی ہے لیکن لفظ کاش کے ساتھ ۔ یہ لفظ کاش ، میرے جیسی بہت سی لاشوں کا قاتل ہے ۔اب کبھی اس راہ سے گزروں تو وہ درخت استقبال ضرور کرتے ہیں لیکن گلہ کرتے ہیں کہ آکاش کو لاش بن کے گزرتے دیکھا نہیں جاتا۔ ان کا گلا جائز ہے مگر میرا کاش اگر آکاش ہوتا تو میں بھی لاش نہ ہوتا۔ نہیں معلوم کہ اسے معلوم ہے اس یکطرفہ محبت کا مگر جو بھی ہو اگر معلوم ہو تو دعا ہے کہ اچھا محسوس ہو۔